Shibli Nomani || شبلی نعمانی

 Shibli Nomani || شبلی نعمانی

Shibli Nomani || شبلی نعمانی

علامہ شبلی نعمانی کی پیدائش اعظم گڑھ ضلع کے ایک گاؤں بندول جیراج پور میں4 /جون 1857ء کو ہوئی تھی- ابتدائی تعلیم گھر ہی پر مولوی فاروق چریاکوٹی سے حاصل کی- 1876ء میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا اور وکالت بھی کی مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ ہونے کے سبب ترک کر دی۔ علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی، چنانچہ فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہیں سے شبلی نے علمی و تحقیقی زندگی کا آغاز کیا۔ پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔ 1892ء میں روم اور شام کا سفر کیا۔ 1898ء میں ملازمت ترک کرکے اعظم گڑھ آ گئے۔ 1913ء میں دار المصنفین کی بنیاد ڈالی۔ 1914ء میں انتقال ہوا۔

شبلی کا شمار اردو تنقید کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی شخصیت اردو دنیا میں بطورشاعر، مورخ، سوانح نگار اورسیرت نگار کی حیثیت سے بھی مسلم ہے۔ شبلی کے تنقیدی نظریات و افکار مختلف مقالات اور تصانیف میں بکھرے ہوئے ہیں لیکن یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کو شاعری اور شاعری کی تنقید سے خاص انسیت تھی۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ شاعری اور اس کے دیگر لوازمات سے متعلق اپنے نظریات کو مفصل طور سے "شعرالعجم" میں پیش کیا بلکہ عملی تنقید کے نمونے "موازنۂ انیس و دبیر" میں پیش کیے۔ یہاں شبلی کی جانب داری یا غیر جانب داری سے مجھے سروکار نہیں بلکہ اصول و نظریے سے بحث درکار ہے۔ "موازنے" میں مرثیہ نگاری کے فن پر اصولی بحث کے علاوہ فصاحت، بلاغت، تشبیہ و استعارے اور دیگر صنعتوں کی تعریف و توضیح اور اس کے مختلف پہلوؤں پر بھی شبلی نے روشنی ڈالی ہے، جس سے ہمیں ان کے تنقیدی شعور کا اندازہ ہوتا ہے۔ شبلی کے نظریۂ تنقید کو سمجھنے کے لیے ان کی مذکورہ دونوں کتابیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں یعنی "شعرالعجم" اور موازنۂ انیس و دبیر۔ انہوں نے "شعرالعجم" کی چوتھی اور پانچویں جلدمیں شاعری، شعر کی حقیقت اور ماہیت، لفظ و معنیٰ اور لفظوں کی نوعیتوں پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس لحاظ سے ان کی یہ تصنیف خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہے ،کیوں کہ انہیں میں انہوں نے اردو کی جملہ کلاسیکی اصناف شاعری کا محاکمہ کیا ہے۔ اردو کی شعری تنقید کو سمجھنے کے لیے ہم اردو والوں کے لیے یہ کتابیں نوادر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کیوں کہ انہیں دونوں میں مندرجہ بالا تمام امور کی صراحت و وضاحت انہوں نے پیش کی ہے۔

شبلی کے نزدیک شاعری تمام فنونِ لطیفہ میں بلند تر حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ تاثر کے لحاظ سے بہت سی چیزیں مثلاً موسیقی، مصوری، صنعت گری وغیرہ اہم ہیں مگر شاعری کی اثر انگیزی کی حد سب سے زیادہ وسیع ہے۔ شاعری کے سلسلے میں وہ محاکات کا ذکر کرتے ہیں اور پھراس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"محاکات کے معنیٰ کسی چیز یا کسی حالت کا اس طرح ادا کرنا ہے کہ اس شے کی تصویر آنکھوں میں پھر جائے۔ تصویر اور محاکات میں یہ فرق ہے کہ تصویر میں اگرچہ مادی اشیا کے علاوہ حالات یا جذبات کی بھی تصویر کھینچی جا سکتی ہے۔ ۔۔ تاہم تصویر ہر جگہ محاکات کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ سینکڑوں گوناگوں حالات و واقعات تصور کی دسترس سے باہر ہیں۔

 

 

شبلی نعمانی کی کتب کا مطالعہ کریں


 


Post a Comment

0 Comments