Muhammad Atta-ul-Rehman Madni || محمد عطاء الرحمان مدنی

Muhammad Atta-ul-Rehman Madni || محمد عطاء الرحمان مدنی

Muhammad Atta-ul-Rehman Madni || محمد عطاء الرحمان مدنی

مولانا محمد عطاء الرحمن مدنی حفظہ اللہ بھارت کے چند ایسے بزرگ علما میں سے ایک ہیں، جو اپنی گوناگوں خدمات کی بنیاد پر قومی ہی نہیں، بلکہ بین الاقوامی سطح پر اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ ان کی خدمات کا دائرہ درس و تدریس، دعوت و ارشاد، افتا و قضا اور تصنیف و تالیف سے لے کر تنظیمی امور تک پھیلا ہوا ہے۔

جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے گریجویشن کے بعد 'دار الإفتاء ریاض' کے داعی کی حیثیت سے افریقی ملک نائجیریا میں سالوں تک مامور رہے اور اپنی زبان و قلم سے عیسائیت، قادیانیت اور تیجانیت وغیرہ کی حقیقت سامنے لاتے رہے. بعد ازاں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے داعی کی حیثیت سے بھارت واپس آئے، جمعیت کے ناظم عمومی بنے، لمبے وقت تک اس کی مجلس عاملہ اور مجلس شوری کے ممبر رہے، مجلس تحقیق علمی کے صدر بنائے گئے اور اس نومولود شعبے کو ایک علمی وقار عطا کیا، المعھد العالی لإعداد الدعاة والمعلمين کے طلبہ کی علمی تشنگی بجھائی، مرکز ابو الکلام آزاد للتوعية الإسلامية کے ٹریزرر رہے، توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کشن گنج کے لیے ایک مربی کا کردار ادا کیا اور ان تمام سرگرمیوں کے پہلو بہ پہلو عربی، اردو، انگلش، ہندی اور بنگلہ زبانوں میں پچاس سے زائد کتابیں لکھیں۔

مولانا بڑے جفاکش، دھن کے پکے اور مضبوط عزم و ارادے کے مالک انسان ہیں۔ اس کی سب سے بڑی دلیل کٹیہار ضلع کے ایک دور افتادہ اور سیلاب زدہ گاؤں گواگاچھی سے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ تک کا ان کا تعلیمی سفر ہے، جو غیر معمولی نشیب و فراز اور کشمکش سے بھرا ہوا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نے سعودی عرب کے اس سفر کے بارے میں ضرور سنا ہوگا، جس کی ابتدا مادی وسائل سے تہی دستی کے عالم میں ہوئی تھی اور انتہا سمندر میں چھلانگ پر ہوئی تھی۔ اس سفر کی پوری تفصیل ان کی آپ بیتی 'سمندر میں چھلانگ' کے اندر موجود ہے۔ 160 صفحات پر مشتمل یہ کتاب انسان کو ہمت و حوصلے کا وہ خزانہ دے سکتی ہے، جس کے ہاتھ آ جانے کے بعد مادی وسائل کا ہونا یا نہ ہونا کچھ خاص اہمیت نہیں رکھتا۔

مولانا کی پیدائش ریاست بہار کے متحدہ پورنیہ ضلع اور موجودہ کٹیہار ضلع کے ایک گاؤں گواگاچھی میں، ایک اوسط درجے کے کسان پریوار میں ہوئی تھی۔ تعلیمی اسناد کے مطابق تاریخ پیدائش 5 جون 1934 ہے۔ محمد عطاء الرحمن بن محمد داؤد حسین بن ظہیر الدین منڈل بن ید اللہ منڈل۔ یہ مختصر سلسلۂ نسب ہے۔ دادا ظہیر الدین منڈل کے پاس لگ بھگ سو بیگھا زمین تھی اور ان کے سبھی بیٹے ایک مشترکہ پریوار کا حصہ بن کر ایک ساتھ رہتے تھے۔

لکھنے پڑھنے کی شروعات ہر نرائن پور ایل پی اسکول سے ہوئی۔ وہیں بنگلہ زبان سیکھی، جس میں بعد میں کئی کتابیں بھی لکھیں۔ اسکول میں تعلیم کے لیے فیس ادا کرنی ہوتی تھی اور پریوار کے لوگ اس میں آنا کانی کرتے تھے، اس لیے اسکول چھوڑ کر گاؤں کے مکتب میں پڑھنے لگے۔ لیکن گھر والوں کو اس سے بھی تسلی نہیں ہوئی۔ وہ تعلیم جاری رکھنے ہی کے موڈ میں نہیں تھے اور بار بار روڑے اٹکانے میں لگے ہوئے تھے۔ اس لیے لاچار ہوکر گھر سے بھاگنا پڑا۔ گھر سے بھاگتے وقت انھیں یہ احساس ہرگز نہ رہا ہوگا کہ اب پوری پڑھائی بھاگ بھاگ کر ہی مکمل کرنی ہوگی!! لیکن، قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے؟ ان کی 'آپ بیتی' میں 'بھاگنا' اور 'پکڑ کر لایا جانا' جیسے الفاظ اتنی بار آئے ہیں کہ یاد رکھنا مشکل ہے۔

محمد عطاء الرحمان مدنی کی کتب کا مطالعہ کریں


Post a Comment

0 Comments