ابن انشاء || شیر محمد خان
ابن انشاء (شیر محمد خان)
آپ کا پیدائشی نام شیر محمد خان تھا اور آپ 15 جون
1927ء کوموضع تھلہ، تحصیل
پھلور، جالندھر کی قصبہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد
کا نام چوہدری منشی خان اور والدہ کا نام مریم تھا۔ آپ نے میٹرک کا امتحان
لُدھیانہ ہائی سکول سے دَرجہ اَوّل میں 1942ء میں پاس کیا۔میٹرک کا اِمتحان پاس
کیا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد وہ انبالہ چھاؤنی میں مِلٹری اکاؤنٹس میں بطَورِ کلرک
بھرتی ہو گئے۔ کم آمدنی، گھریلو اُلجھنوں اور دفتری مَصرُوفیات کے باوجُود اُنہوں
نے تعلیمی سِلسِلہ مُنقطع نہیں ہونے دیا، چُنانچہ 1944ء میں مُنشی فاضِل کا اِمتحان
پاس کیا۔ پاکستان بننے کے بعد کراچی
یونیورسٹی سے 1953ء میں ماسٹرز کیا۔
اِنشاء جی کا شُمار اُردو اَدب کے اُن مایہ ناز قَلم
کاروں میں ہوتا ہے جِنہوں نے نظم ونثر دونوں میدانوں میں اپنے کمالِ فن کے جَھنڈے
گاڑے ہیں۔ اُن کی ہَمہ گِیر اور ہَمہ جِہت شَخصِّیت میں ایک شاعِر بھی موجُود ہے،
ایک کالم نویس بھی، بَچّوں کا ادیب بھی اپنی موجُودگی کا اِحساس دِلاتا ہے،
سفرنامہ نِگار اور مُتَرَجِم بھی پائے جاتے ہیں۔ غرض یہ کہ وہ ہر صِنفِ اَدب میں
ایک اَلگ دبستان ہیں اور اپنے اُسلُوب کے مَؤجِد بھی ہیں اور خاتَم بھی۔
اِبنِ اِنشاء کا اصل نام شیر مُحَمّد خان تھا۔ اِنشاء
جی کہا کرتے تھے کہ میرے اَصل نام میں ایک عَدد چُوپائے (شیر) کا نام شامِل ہے اِس
لیے جانوروں کے ساتھ مُشابہت سے بَچنے کی خاطِر میں نے اَصل نام کی بَجائے قلمی
نام (اِبنِ اِنشاء) اِختیار کیا۔ جمیلُ الدین عالی نے اِبنِ اِنشاء کو
"اِنشاء جی" کہا جِس کی وجہ سے اِبنِ اِنشاء "اِنشاء جی" ہی
ہو گئے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حَقِیقت ہے کہ ادبی حلقوں میں وہ اپنے اَصل نام کی
بجائے قلمی نام سے زیادہ شُہرت رکھتے ہیں بلکہ سَچ تو یہ ہے کہ اُردو شِعر واَدب سے
شَغَف رکھنے والے ایسے لوگوں کی تعداد کَم ہے جو اُن کے اَصل نام سے واقِف ہیں۔
ابنِ انشاء نے شاعری تو اسکول کے زمانے سے ہی شروع کردی
تھی لیکن اس پر اصل نکھار اسوقت آیا جب تقسیمِ وطن کے بعد لاہور میں سکونت اختیار
کی۔ لاہور
اس زمانے میں علم و ادب کا گہوارہ تھا اور ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کی بڑی
تعداد وہاں موجود تھی ۔ جس میں حمید اختر،ابراہیم جلیس،سبطِ حسن،احمد راہی،ہاجرہ
مسرور ،خدیجہ مستور اور احمد ندیم قاسمی کے نام نمایاں ہیں، ہفتہ کے ہفتہ ادبی
اجلاس ہوتے جہاں افسانے،مضامین ،غزلیں اور نظمیں پڑھی جاتیں اور ان پر زوردار بحث
ہوتی۔ ان مجالس نے اس دور کے ادبی رجحانات
کے تعین میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی ، پھر
ابنِ انشاء اس سے کیسے بچ سکتے تھے حالانکہ یہاں بھی انھوں نے اپنی انفرادیت
برقرار رکھی ہے۔
امانت علی خان کی وفات کے چار سال بعد اِس غَزل کے
شاعِر اِبنِ اِنشاء بھی چَل بَسے۔اِبنِ اِنشاء طویل علالت کے بعد 51 برس کی عُمر میں
11 جنوری 1978ء کو لندن کے ایک ہسپتال میں اِنتِقال کر گئے۔ اُنہیں 13 جنوری کو
کراچی میں پاپوش نِگر کے قبرستان میں سُپُردِ خاک کیا گیا۔ وہ 1977ء سے کینسر کے ساتھ نبرد آزما ہونے کی
وجہ سے لندن میں زیرِ عِلاج تھے۔ اِنشاء جی نے ہِسپتال کے بِستر سے اپنے قریبی
دُوستوں کو بہُت سے خَط ارسال کیے۔ ایسے ہی ایک خَط میں اُنہوں نے لِکھا کہ وہ
"اِنشا جی اُٹھو" کی کامیابی اور امانت علی خان کی مَوت پر حیران ہوتے ہیں۔
اُنہوں نے اپنی گِرتی ہوئی حالت کی جانِب اِشارہ کرتے ہوئے لِکھا: "یہ
مَنحُوس غَزل کِتنوں کی جان لے گی؟" اِس کے اَگلے روز 11 جنوری 1978ء کو
اِبنِ اِنشاء کا اِنتِقال ہو گیا۔ وفات کے وقت اُن کی عُمر صِرف 51 سال تھی۔
ابنِ انشاء مرحوم کا آخری سفرنامہ ’نگری نگری پھرا
مسافر‘ ان کی وفات کے کئی سال بعد شائع کیا گیا۔
ابن انشاء کی اردو کتب کا مطالعہ کریں
Post a Comment
0 Comments