Hakim Dost Muhmmad Sabir Multani - حکیم دوست محمد صابر ملتانی
Hakim Dost Muhmmad Sabir Multani - حکیم دوست محمد صابر ملتانی
حکیم انقلاب
حاجی دوست محمد صابر ملتانی۔ بے شمار مجتہدین و محققین، مشاہیر و مصلح اور مفکرین
عظام گزر چکے ہیں جنہوں نے تحفظ حقوق اطباء و احیائے طب کےلئے انتہائی گراں قدر
جانی و مالی قربانیاں دیں جن کی وجہ سے ناموس فن اور عظمت علم آج تک برقرار ہے۔ ایسے
شہیدان علم و فن ہمدرد انسانیت، معمار ملک و ملت اور عظیم انسانوں میں سے ایک
نامور ہستی ابن سینائے وقت، لقمان حکمت موجد قانون مفرد اعضاء و استاذی المکرم
حضرت حاجی دوست محمد صابر ملتانی تھے۔ حکیم انقلاب نہ صرف بلند پایہ محقق و عالم
تھے بلکہ ہمدرد و ملت ایک سچے مسلمان، خادم قوم، ایک مدبر سیاستدان، منفرد ادیب و
صحافی، کامیاب معالج، عظیم مصنف و مؤلف، عدیم المثال استاد انتہائی کامیاب طبی
رہنما، شعلہ بیاں مقرر، عظیم منتظم، طبی سائنسدان، ایک انتہائی غم گسار اور شریف
النفس انسان تھے۔ آپ کا نام نامی اسم گرامی حضرت حاجی دوست محمد اور صابر آپ کا
تخلص ہے۔ آپ 9 جولائی 1907ء کو ملتان چھاؤنی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد اپ نے علوم شرقیہ کے امتحانات اعلی پوزیشن
میں پاس کئے اور علوم جدیدہ میں بھی مہارت نامہ حاصل کی۔ آپ کے والد گرامی جناب شیخ
نور حسن راجپوت نہ صرف علم و فن کے شیدائی تھے بلکہ خود بھی با کمال صاحب کسب تھے۔
آپ کے نانا ریئس الاطباء حکیم اللہ بخش ملتان کے نامور اطباء کرام میں شمار ہوتے
تھے۔ ملتان کے اردونواح میں حکیم موصوف کا طوطی بولتا تھا۔ قدرت نے آپ کو ایسا دست
شفاء عطا فرمایا تھا کہ آپ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ استادی المکرم کی والدہ
محترمہ کی دلی تمنا تھی کہ جناب صابر ملتان ایک عظیم معالج بن کر دکھی انسانیت کی خدمت کرے لہذا علم و فن طب کے حصول کے لئے
آپ کے ماموں زبدۃ الحکماء جناب حکیم احمد حسن نے آپ کے اند چھپے ہوئے حکیم کو ظاہر
کرنے کے لئے نہ صرف ترغیب دی بلکہ انتہائی احسن طریقہ سے کام لیا۔ شروع میں آپ نے
اپنے ماموں حکیم احمد حسن سے طب کو علمی و عملی طریقہ سے سیکھنا شروع کیا۔ اس کے
بعد علمی تشنگی دور کرنے اور فنی پیاس بجھانے کے لئے آپ نے طبیہ کالج لاہور میں
داخلہ لے لیا اور حکیم حاذق کا امتحان امتیازی پوزیشن میں پاس کیا۔
دار العلوم
انجمن خادم الحکمت شاہدرہ لاہور میں ممتاز الطباء کا امتحان دیکر سند حاصل کی کلیات
میں اول پوزیشن پر آپ کو خصوصی تمغہ سے نوازا گیا۔ 1931ء میں ہومیو پیتھک کا
ڈپلومہ کورس ایل ایس ایچ اعلی درجہ میں پاس کیا۔
سب سے پہلے آپ
نے اپنا مطب یونانی میڈیکل ہال کے
نام سے لاہور چھاؤنی میں قائم کیا۔ مطب کا افتتاح علامہ فن مورخ طب جناب حکیم
علی احمد نیئر واسطی سابق پروفیسر طبیہ کالج لاہور و صدر طبی بورڈ نے کیا تھا۔ کچھ
مدت کے بعد دارالعلوم طبیہ خادم الحکمت شاہدرہ میں بطور پروفیسر آپ کا تقرر ہوا اور
آپ نے باقاعدہ اپنے تدریسی فرائض کو انجام دینا شروع کیا۔
آپ کے استاد المرکم جناب حکیم احمد دین صاحب دور
اندیش طبیب اور محقق تھے۔ آپ نے قبلہ صابر ملتانی کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور
جلد ہی کالج کا پرنسپل مقرر کر دیا۔ علاوہ ازیں ماہنامہ خادم الحکمت کے ایڈیٹر
مقرر ہوئے۔ اپنی جملہ عملی کاوشوں کو صفحہ قرطاس پر منتقل کر کے عوام الناس کو فیض
یاب کرتے رہے۔ اسی اثناء میں حکیم احمد دین کے نظریہ افعال الاعضاء کو علمی و عملی
طور پر پرکھنے کا خاص موقع ملا اس نظریہ کے بارے میں آپ کے ذہن میں کچھ سوالات پیدا
ہوگئے جن کے حل کے لئے استاد الاطباء جناب حکیم احمد دین صاحب سے متعدد بار سمجھنے
کی کوشش کی مگر اطمینان قلب حاصل نہ ہوا اسی دوران میں جناب حکیم احمد دین صاحب
قضائے الہی سے وفات پا گئے۔
آپ قبلہ صابر ملتانی کی طبیعت قدرے مغموم و پریشان
رہنے لگی چونکہ طبی نظریات کی صحت کے بارے میں حضرت صابر ملتانی مطمئن نہ تھے بیزار
ہو کر اس فن کو محض اس لئے چھوڑنے کا ارادہ کیا کہ اپنے پاس کوئی اصول اور صحیح طریقہ
علاج نہیں ہے اور فقط مال و زر اور سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے انسانی
جانوں سے کھیلا جائے۔ یہ کوئی انسانیت نہیں ہے۔ اللہ کے حضور کو کیا جواب دونا کہ
تیرے بندوں کا غلط اور غیر اصولی علاج کرتا رہا۔ مجھ سے ہر گز ایسا نہیں ہوگا۔ پس
اس دوران میں ایک ہیضہ کا مریض علاج کے لئے حاضر خدمت ہوا۔ اسکے علاج کے دوران آپ
کو کامیابی کی کرن نظر آئی جس کی تصدیق کے لئے آپ نے مسلسل بیس سال تک تجربات و
مشاہدات کئے بلکہ بعض تصدیقات کے لئے اپنے
جسم مبارک کو تجربات و مشاہدات کی بھٹی میں جھونک دیا کرتے تھے۔ اس کے بعد آپ نے اپنی تحقیق کو نظریہ مفرد
اعضاء کے نام سے طبی دنیا میں پیش کردیا۔ آپ کا یہ نظریہ ایک کسوٹی اور آفاقی حقیقت
ہے۔ جو کہ فطری اصولوں کا نچوڑ ہے۔ اس اصول و نظریہ سے مختلف علم و فنون کی ترقی و
احیاء اور تجدید کا کام لیا جاسکتا ہے۔ حضرت صابر ملتانی نہ صرف طبی محقق تھے بلکہ
مسیحا بھی تھے اور مریضوں کا علاج کچھ اس انداز سے کرتے تھے کہ وہ نہ صرف امراض سے
نجات حاصل کر لیتے تھے بلکہ مطب سے ایک کامیاب طبیب بن کر نکلتے تھے۔ گویا حضرت
صابر ملتانی اسلاف اطباء کرام کی زندہ تصویر تھے آپ اپنی ذات میں عطیم دانش گاہ
بلکہ درسگاہ تھے۔ جس کا زندہ ثبوت ملک کے علاوہ بیرون ملک بھی کثیر تعداد میں آپ کے شاگرد حضرات اور پیروکار دکھی انسانیت
کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ کے بنیادی ساتھیوں اور شاگردوں میں سے جنہوں نے آپ
کی آواز پر نہ صرف لبیک کہا بلکہ اس مشن کی تکمیل کے لئے اپنی جملہ صلاحیتوں کو
وقف کر دیا۔ ان حضرات میں لاہور سے شمش الحکماء جناب حکیم غلام نبی ایم اے گولڈ
مڈلسٹ، نشانی اسلاف حکیم محمد عظیم قاسمی صاحب، عاشق صابر، جناب حکیم ڈاکٹر اختر
حسین گولڈ مڈلسٹ، شفاء الدھر حکیم محمد صدیق شاہین، حکیم سید منور علی شاہ، حکیم
محمود قریشی، حکیم پروفیسر فضل کریم فیصل آباد سے جناب حکیم رحمت علی راحت،
سرگودھا سے عکس صابر شہید فن جناب حکیم چوہدری برکت علی، چوہدری دلاور علی بھلی،
چوہدری اکبر علی نسیم، ملتان سے جناب حکیم
الہی بخش ملتانی، حکیم حاجی غلام رسول ملتانی، دنیاپور سے حکیم حاجی محمد شریف ،
حکیم محمد یاسین طاہر، منڈی بہاؤالدین ضلع گجرات سے حکیم غلام رسول بھٹہ، منڈی عارف والہ سے حکیم
قاضی خالد محمود ایڈوکیٹ، کمالیہ سے حکیم غلام کافی، حکیم پروفیسر اسلم سجاد،
پاکپتن شریف سے سقراط وقت لقمان دوراں صابر ثانی کیمیاوی، دنیا کا جابر عکس علامہ
روحی حضرت حکیم خدا داد خان صاحب، حکیم حاجی شیر محمد، حکیم حاجی محمد یعقوب، حکیم
ملک خیر دین ڈوگر، حکیم عبد القدیر ہاشمی، حکیم محمد یاسین چاولہ، منڈی ہیرا سنگھ
سے حکیم غلام حیدر سہیل ان کے شاگر حکیم مرزا محمد عالم حکیم رفیق صاحب، علاوہ ازیں
بے شمار شیدائی فن حضرات جن کا ذکر طوالت کے باعث ہوگا لہذا مزید تفصیل کے لئے میری
کتاب انقلابی حکماء میں ملاحضہ کریں۔
آپ نے اپنی
آواز کو عوام الناس تک پہنچانے کے لئے مختلف رسائل کا اجراء کیا جن میں تبصرہ
الاطباء اور رجسٹریشن فرنٹ بہت مشہور ہوئے۔ رجسٹریشن فرنٹ ماہوار رسالہ تھا۔ جس کا
سالنامہ حکیم صاحب سالانہ خریداروں کو مفت دیا کرتے تھے۔ جو کہ کتابی صورت میں ہوا
کرتا تھا۔ آپ نے اپنی تحقیقات پر مبنی تقریباً بیس کتب شائع کیں اور بے شمار غیر
مطبوعہ کتب و رسائل چھوڑ کر گئے جو اب جانشین حکیم انقلاب قبلہ جناب مسلم ناصر شکیل
صاحب کی نظر کرم کے منتظر ہیں۔
آخری ایام میں تمام تجربات و مشاہدات کو قرآن مجید
کی روشنی میں مرتب کرنا شروع کیا۔ علاج معالجہ میں حلت و حرمت کا بہت خیال رکھتے
تھے۔ نجس چیزوں سے علاجہ کرنے کے بالکل خلاف تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ شافعی
مطلق تو وہ خود ہے۔ ہم کیوں ممنوعہ اشیاء استعمال کروائیں۔ طبی دنیا کے محسن عظیم دکھیوں کے سہارا اپنی حیات مبارکہ میں ہی اپنے
فن کو پروان چڑھتے ہوئے دیکھ کر 30 مئی 1972ء میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
پروفیس حکیم
ڈاکٹر حاجی محمد یاسین چاولہ
Post a Comment
0 Comments