Hakeem Idrees Habban Raheemi || حکیم ادریس حبان رحیمی
Hakeem Idrees Habban Raheemi || حکیم ادریس حبان رحیمی
ولادت وخاندانی پس منظر
آپ کی پیدائش ہندوستان کے مشہور
مردم خیزضلع مظفر نگر کے قصبہ چرتھاول میں جناب الحاج حضرت منشی محمد عمران صاحب
کے یہاں20؍ اپریل 1958 میں ہوئی۔
آپ کا گھرانہ شروع سے ہی دین داری
کے اعتبار سے معروف ہے۔ خاندانی شرافت و وجاہت ،وضع داری میں آج بھی مشہور و معروف
ہے۔ آپ کے دادا حضرت شیخ سلیمان صاحب انصاری علیہ الرحمہ جو اپنے علاقہ اور بستی میں
ایک باوقار شخصیت کے مالک تھے نوجوانی میں آپ حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا
اشرف علی تھانوی ؒ کے مجلس میں شریک ہوا کرتے تھے۔ دادا سلیمانؒ گھر کے سامنے والی
مسجد میں پنج وقتہ نماز ادا کرتے تھے یہ چرتھاول کی سب سے قدیم مسجد ہے جس کو شاہ
محمد تغلق نے تعمیر کرایا تھا اس کو قدیم زمانہ میں بھونرے والی مسجد کے نام سے
جانا جاتا تھا۔ کیوں کہ اس میں بادشاہ نے ایک تہہ خانہ بھی بنوایا تھا۔ بادشاہ یا
حکومت کے عہدیدار دورانِ سفر یہاں قیام کیا کرتے تھے۔ برٹش حکومت کے دور میں عام
مسلمانوں نے اس تہہ خانہ کو مٹی سے پاٹ کر بند کردیا تھا۔ جس کی اب جدید تعمیر حکیم
صاحب کے والد محترم الحاج محمد عمران صاحب کی زیر نگرانی مکمل ہوئی ہے۔ اس کا نیا
نام مسجد عثمان غنی رکھدیا گیا ہے لیکن آج بھی بھونرے والی مسجد کے نام سے معروف
ہے۔دادا محمد سلیمان شیخ انصاری کو اپنے والد سے تواضع، انکساری ورثہ میں ملی تھی
۔ وہ سادہ طبیعت کے مالک ، صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ حضرت مولانا محمد الیاس
صاحبؒ سے زیادہ عقیدت ، محبت رکھتے تھے۔ اسی لئے سال بھر میں ایک مرتبہ جماعت میں
وقت لگانا ضروری سمجھتے تھے۔
چاروں سلسلوں سے اجازت وخلافت
ایسے علمی ودینی ماحول اور مردم خیز
سرزمین میں پیدا ہونے والے سپوت میں اکابر واسلاف اور علمائے عظام کا علم وعمل اور
رونق ووجاہت آنا فطری تھا، یہی وجہ رہی کہ صرف انیس سال کی عمر میں حبیب الامت
حضرت مولانا ڈاکٹر حکیم محمد ادریس حبان رحیمی مدظلہ العالی کو پیر کامل قلندرِ
زماں حضرت حافظ مصطفی کامل رشیدی اعرابی رحمۃ اللہ علیہ نے دو سلسلوں ایک حضرت شیخ
الاسلام رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرا حضرت شاہ عبد القادر صاحب رائے پوری رحمۃ اللہ
علیہ سے اجازت وخلافت عطا فرمائی، بعدہٗ تعلیمی فراغت کے بعد بھی آپ اکابر ومشائخ
کی جوتیاں سیدھی کرنا سعادت تصور فرماتے رہے، ان دو سلسلوں سے اجازت کے بعد بھی آپ
اپنے آپ کو اس کا اہل تصور نہ فرماتے، بالآخر تیسری خلافت واجازت حضرت مولانا
الشاہ حکیم زکی الدین احمد صاحب رحمۃ اللہ نے عطا فرمائی، اور پھر چوتھی اجازت
وخلافت حضرت مولانا حافظ جمیل احمد صاحب دامت برکاتہم نے عطا فرمائی۔ آپ کو چاروں
سلسلوں یعنی نقشبندیہ، قادریہ، سہروردیہ اور چشتیہ میں خلافت واجازت حاصل ہے۔
تعلیم و تربیت
حضرت حکیم صاحب کی ابتدائی تعلیم
قرآن کریم حفظ کی تکمیل اپنے وطن چرتھاول میں ہوئی ۔اور خادم العلوم باغوں والی میں
ابتدائی عربی درجات کی تعلیم حاصل کی اس کے بعد جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ شریف
میں آپ نے تعلیم حاصل کی تجوید و قرأت اور عربی درجات کے اساتذہ میں آپ کے معروف
اساتذۂ کرام میں حضرت مولانا قاری شریف احمد صاحبؒ سابق ناظم جامعہ اور حضرت مولا
نا شیخ وسیم احمد صاحب حفظہ اللہ شیخ الحدیث جامعہ اشرف العلوم رشیدی کا نامِ نامی
بھی ہے جن سے حکیم صاحب نے شرف تلمذ حاصل کیا۔جن کی علمی دینی شخصیت کے قائل بڑے
بڑے اساطین علم رہے ہیں۔
طبی خدمات
تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے
کہ حضرت ادریس علیہ السلام جن کو ہرمس(HURMUS) یا الہرامسہ(AL HARAMSAH) کہاجاتا ہے طب کے بانی تھے۔اہل تحقیق اپنی تحقیقات کی روشنی میں اس
نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ حکمت اس نبوت کا دوسرا نام ہے جو حضرت ادریس علیہ السلام کو
دی گئی تھی۔آپ کو مختلف ممالک میں مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا تھا مثلاً یونانی
آپ کو اریس (ARIS)کہا کرتے تھے۔مجھے ایسا لگتا ہے کہ حکیم صاحب کی کامیابی کا ایک راز یہ
بھی ہے کہ آپ کا نام اس برگزیدہ نبی کے نام سے موسوم ہے جو اس علم طب کا بانی ہے
حدیث پاک میں آیا ہے کہ نام کا اثر انسانی زندگی پر اس طرح پرتا ہے جیسا سورج کی
دھوپ کا اثر زمین پر پڑتا ہے اسی لئے آپ اسم با مسمٰی ہیں بہر حال اس بات سے اہل
علم ضرور اتفاق کریں گے کہ ہر نام کااثر ضرور پڑتا ہے۔حضرت لقمان حکیمؑ کے تعلق سے
بعض علماء بالخصوص حضرت مولانا حکیم عبد الرشید محمود نبیرہ حضرت گنگوہی کے بقول
کہ حضرت لقمان حکماء کے نبی تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو علم و حکمت اور دانائی سے
نوازا تھا۔
حکیم صاحب عصر حاضر کے ایک ایسے
ماہر طبیب و حکیم کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں جن کا شہرہ ہندوپاک و عرب ، افریقہ و
امریکہ ہی نہیں بلکہ دنیا کے تقریباً چالیس ممالک تک پہونچ چکا ہے۔ آپ کاایک بڑا
کارنامہ یہ بھی ہے قدیم فن طب کو نئے قالب میں پیش کرنا، جڑی بوٹیوں کو ٹیبلٹ (TABLETS) اور کیپسول(CAPSULES) کی شکل میں متعارف کرانا۔ طبابت کاپیشہ جو انبیاء علیہم السلام اور
علمائے کرام سے چلا آرہا ہے آپ اس کے سچے امین و معین ہیں۔آپ کی دن رات کی مسلسل ۷۳
سالہ فن طب کی محنت نے آپ کو بام عروج تک پہونچادیا۔جنوبی ہند میں حکمت و طبابت کی
گرتی ہوئی حالت کو آپ نے نئے سرے سے زندگی بخشی۔جدید فن طب و حکمت کے آپ شہسوار ہیں۔یہی
وجہ ہے کہ آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہو ئے ریاستِ کرناٹک کے گورنر عزت مآب شری
بھاردواج جی نے آپ کی خدمت میں مومنٹو(MOMENTO) پیش کرکے آپ کی طبی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔اسی طرح بہت
سے معروف اداروں نے بھی آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مختلف ایوارڈ س سے نوازا
ہے۔
طریقت و سلوک
حکیم صاحب نے تصوف و طریقت کے
رازہائے سربستہ کو جاننے کے لئے اہل اللہ کی جوتیاں سیدھی کی ہیں اور اپنے آپ کو
راہ طریقت و سلوک ، تصوف و تزکیہ پر چلایا۔آپ جہاں جسمانی مریضوں کا علاج و معالجہ
کرتے ہیں وہیں مسند رشد وہدایت سے مریضوں کی بھی رہنمائی کرتے ہیں۔اور یہ کیوں نہ
ہو آپ کی نسبت ہی ایسی شخصیتوں سے ہے جو اپنے وقت کے طبیبِ جسمانی کے ساتھ ساتھ طبیب
روحانی بھی رہے ہیں۔
آپ سنجیدگی و متانت کے پیکر،اخلاص و
للہیت سے معمور، حسن سیرت اور حسن صورت دونوں صفات سے متصف ہیں فللّہ والحمد
والشکر۔چھوٹوں پر شفقت و رحمت اور ان کی حوصلہ افزائی کی صفت میں نے بہت کم لوگوں
میں دیکھی ہے:
تصنیفی خدمات
آپ تقریباً ۰۹سے
زائد کتابوں کے مصنف و مؤلف ہیں۔ جیسا کہ پہلی سطور میں ذکر کیا گیا ہے کہ آپ کی
مشہور شاہکار کتاب ’’خوابوں کی تعبیر اور اس کی حقیقت ‘‘ جس کے متعدد ایڈیشنس (ADISONS) ہندو پاک میں شائع ہوچکے ہیں۔آپ کی ایک کتاب ’’مفتاح الصلوٰۃ‘‘ نماز
کے موضوع پر بہت اہم کتاب ہے، کئی مدارس و اسکولوں میں داخل نصاب ہے۔اصلاحی حلقوں
میں بھی بہت مقبول ہے۔ ان کے علاوہ آپ کے سات سو کے قریب مضامین و مقالات مختلف
موضوعات پر ہیں۔جس میں سماجیات ، شخصیات ، دینیات اورطب شامل ہیں۔مزیدآپ نے ۶۹۹۱ء
میں ’’نقوشِ ہند ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا جس کے آپ مدیر اعلیٰ رہے۔پھر اس
رسالہ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اور لوگوں کے اصرار پر اس کانام ۱۰۰۲
ء میں بدل کر’’نقوش عالم‘‘ کردیا گیاجو تب سے آج تک بلا ناغہ ہر ماہ پابندی سے
شائع ہو رہا ہے اس کا موضوع طب، مذہب اور ادب، فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہے۔
تلخیص مضمون از عبد اللہ سلمان ریاض
Post a Comment
0 Comments