عبد اللہ حسین
عبد اللہ حسین
عبد اللہ حسین (انگریزی: Abdullah Hussain)، (پیدائش: 14 اگست 1931ء - وفات: 4 جولائی 2015ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی شہرت یافتہ ناول و افسانہ نگار تھے جو اپنے ناول اداس نسلیں کی وجہ سے دنیائے ادب میں شہرت رکھتے ہیں۔
عبد اللہ حسین 14 اگست 1931ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد خان تھا۔ والد محمد اکبر خان برطانوی راج میں راولپنڈی میں ایکسائزانسپکٹر کی حیثیت سے ملازمت کرتے تھے، جن کا آبائی وطن پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کا ضلع بنوں تھا۔ عبد اللہ حسین کے والدین وطن کو خیر باد کہہ کر پنجاب میں آبسے تھے۔ ان کی تین بیٹیاں تھیں۔ عبد اللہ حسین اپنے والد کی پانچویں مگر آخری بیوی کی واحد اولاد تھے اور پاچ برس کی عمر سے ہی اپنے آبائی شہر گجرات میں رہنے لگے تھے۔ چونکہ عبد اللہ حسین کے والد سرکاری ملازمت میں تھے اس وجہ سے انہیں ملک کے مختلف علاقوں میں منتقل ہونا پڑا۔ وہ راولپنڈی کے علاوہ فیروزپور اور جھنگ جیسے شہروں میں بھی رہے۔
عبد اللہ حسین کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی تھی۔ محمد اکبر خان اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت اور رہن سہن پر پوری توجہ دیتے تھے اور ان کا ہر وقت خیال رکھتے تھے۔ نو برس کی عمر میں عبد اللہ حسین کی مذہبی درس و تدریس کے سلسلے میں صدرالدین نام کے ایک مولوی صاحب کو رکھا گیا۔ انہوں نے پرائمری کی تعلیم سناتن دھرم اسکول میں حاصل کی جو 1960ء کے بعد مدرسۃ البنات کہلایا اور 1946ء میں گجرات کے اسلامیہ ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1952ء میں انہوں نے زمیندار کالج، گجرات سے بی ایس سی کیا
عبد اللہ حسین جب تعلیمی مراحل میں تھے اور گریجویشن کے لیے کالج میں گئے تھے تو وہاں انگریزی زبان سے ہی زیادہ واسطہ پڑتا تھا چاہے وہ تاریخ ہو، جغرافیہ ہو یا اکنامکس۔ انگریزی ذریعہ تعلیم ہونے کی وجہ سے ان کو اس زبان پر دسترس حاصل ہو گئے۔ اسی زمانے میں انہوں نے کئی انگریزی ناول پڑھے۔ پھر دیگر یورپی ادب کا انگریزی ترجمہ پڑھا۔ روسی اور فرانسیسی ناول پڑھے۔ انہوں نے اپنے ناولوں اور افسانوں کے ترجمے خود کیے اور براہِ راست انگریزی میں بھی ان کی تحریریں شائع ہوتی رہیں
ان کے گھریلو حالات بہت اچھے نہیں تھے اس وجہ سے وہ اس ملک میں آگے کی تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور اسی سال ضلع جہلم کے ڈنڈوت میں واقع ڈالمیا سیمنٹ فیکٹری اور نیشنل فیکٹری میں بطور اپرینٹس کیمسٹ ملازمت اختیار کر لی۔ بعد ازاں میانوالی کے داؤد خیل میں میپل لیف سیمنٹ فیکٹری میں کیمسٹ کے عہدہ پر تقرری ہوئی۔ 1959ء میں عبد اللہ حسین کو کولمبو پلان کا فیلو شپ ملا۔ میک ماسٹر یونیورسٹی کینیڈا سے کیمیکل انجینئری میں ڈپلوما حاصل کرنے کی غرض سے کینیڈا جانا پڑا لیکن صرف ایک سال دو مہینے بعد ہی پاکستان لوٹ آئے جہاں ان کو پاکستان انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن میں سنیئر کیمسٹ کی حیثیت سے ملازمت مل گئی۔
عبد اللہ حسین کی طبعیت میں ٹھراؤ یا یکسانی کم تھی۔ وہ اپنے والد کی طرح ہمیشہ باغیانہ ذہن کی طرح کام کرتے رہے۔ ممکن ہے یہ ذہنیت بچپن کے دور کی حکومتی پالیسیوں یا برطانوی سامراج میں رونما ہونے والے واقعات یا حالات سے تجربوں کی شکل میں ان کی زندگی کا حصہ بن گئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 1965ء میں پاکستان انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کی ملازمت سے استعفا دے دیا اور فاروقیہ سیمنٹ فیکٹری میں چیف کیمسٹ کی حیثیت سے ملازمت کرلی لیکن یہاں بھی وہ اپنی بے چین طبیعت کی وجہ سے زیادہ دن نہ ٹک سکے اور دسمبر 1966ء میں اس فیکٹری کو بھی خیر باد کہا۔ پھر پاکستان سے لندن چلے گئے وہاں برمنگھم شہر کے ایک ادارے کول بورڈ (Coal Board) میں اپرینٹس کیمسٹ کی حیثیت سے 1967ء میں ملازمت اختیار کی لیکن محض دو سال ہی یہ ملازمت رہی اور اسے چھوڑ دیا اور لندن کے ایک ادارے نارتھ تھامس گیس بورڈ سے وابست ہو گئے۔ لیکن کچھ عرصے بعد قدرتی گیس کی دریافت ہوئی تو معاشی حالت کچھ زیادہ بہتر نہ ہونے کے سبب ادارے نے اپنی مرضی سے ملازمت سے سبکدوش ہونے والوں کو خصوصی پیکج دینے کا اعلان کیا اور عبد اللہ حسین نے 1975ء میں استعفا دے دیا، ان کے اہل خانہ کو یہاں آئے ہوئے پانچ سال ہوچکے تھے۔ ایک سال بعد انہوں نے پھر پاکستان کا رخ کیا اور وہاں مستقل سکونت کا ارادہ کیا لیکن اس زمانے میں پاکستان میں سیاسی ہنگامی آرائی عروج پر تھی۔ انہوں نے انتخاب کے دوران اپنے دوست حنیف رامے کا خوب بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا لیکن وہ الیکشن ہار گئے تو ان کو کافی صدمہ پہنچا۔ انتخابی سرگرمیوں کے باعث وہ نئی حکومت کی نگاہ میں بھی آچکے تھے اس لیے مجبوراً 1977ء کے درمیانی عرصے میں برطانیہ چلے گئے۔ چند مہینوں بعد ان کی بیوی کو لیبیا کی ایک کمپنی میں ملازمت مل گئی اور عبد اللہ حسین پھر لیبیا کو روانہ ہو گئے۔ اب ان کو قدرے سکون حاصل تھا اور فرصت کے لمحات میسر تھے
عبد اللہ حسین کی کتب کا مطالعہ کریں
Post a Comment
0 Comments